خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہو وصی شاہ
تُو فیصلۂ ترکِ ملاقات میں گُم ہے بندہ تری دیرینہ عنایات میں گُم ہے ہم منزلِ بے نام کے راہی ہیں ازل سے تُو تذکرہِ حسنِ مقامات میں گُم ہے شادابئ گلشن کو بیاباں نہ بنا دے وہ شعلۂ بے تاب، جو برسات میں گُم ہے "ہے گردشِ دوراں کا عناں گیر قلندر" گُم کردہ روایات، مگر زات میں گُم ہے منزل ہے بہت دور مگر حسنِ تقرب واصفؒ ترے قدموں کے نشانات میں گُم ہے واصف علی واصف
میں نے کئی رنگ کے سائے سونگھے ہیں مگر دیواروں پر کندہ کیے پھولوں میں کبھی خوشبو نہیں مہکی محبت روح میں تب اترتی ہے جب غموں کی ریت اور آنسوؤں سے ہم اپنے اندر شکستگی تعمیر کرتے ہیں جس قدر بھی ہنس لو نجات کا کوئی راستہ نہیں تم محبت کے گنہ گار ہو سو غم تمہاری ہڈیوں میں پھیلا ہوا ہے اپنے عمیق تجربے سے بتاؤ ایک محبت ماپنے کے لیے ہمیں دوسری محبت کیوں تلاشنا پڑتی ہے میں جمع ہو کر کم پڑ گیا ہوں کہیں ایسا تو نہیں ارتقا کی جلد بازی میں میں نے دو نفی جوڑ لیے ہیں زاہد امروز
قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے مہر دیکھنا ہے کس جگہ کس وقت مل پائیں گے ہم گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے خالی گلدانوں سے باتیں کرکے سو جائیں گے ہم ادھ کھلی تکیے پہ ہوگی علم و حکمت کی کتاب وسوسوں وہموں کے طوفانوں میں گھر جائیں گے ہم اس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اٹھا آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم زہرا نگاہ
سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا کہیں پر راہ بھولے تھے نہ رک کر دم لیا تھا زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا چلے چلتے تھے رہرو ایک آواز اخی پر جنوں تھا یا فسوں تھا کچھ تو تھا جو ہو رہا تھا میں اس دن تیری آمد کا نظارہ سوچتی تھی وہ دن جب تیرے جانے کے لیے رکنا پڑا تھا اسی حسن تعلق پر ورق لکھتے گئے لاکھ کرن سے روئے گل تک ایک پل کا رابطہ تھا بہت دن بعد زہراؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا زہرا نگاہ
اس رہ گزر میں اپنا قدم بھی جدا ملا اتنی صعوبتوں کا ہمیں یہ صلہ ملا اک وسعت خیال کہ لفظوں میں گھر گئی لہجہ کبھی جو ہم کو کرم آشنا ملا تاروں کو گردشیں ملیں ذروں کو تابشیں اے رہ نورد راہ جنوں تجھ کو کیا ملا ہم سے بڑھی مسافت دشت وفا کہ ہم خود ہی بھٹک گئے جو کبھی راستہ ملا زہرا نگاہ
جبور ہیں پر اتنے تو مجبور بھی نہیں جب ان کو بھول جائیں وہ دن دور بھی نہیں کچھ تو لکھی ہیں اپنے مقدر میں گردشیں کچھ پیار میں نباہ کا دستور بھی نہیں میں نے سنا ہے ترک تعلق کے بعد سے افسردہ گر نہیں تو وہ مسرور بھی نہیں دیکھی ہیں میں نے ایسی بھی دکھیا سہاگنیں بیاہی ہیں اور مانگ میں سیندور بھی نہیں یہ جس کا زہر روح میں میری اتر گیا ہلکا سا گھاؤ تھا کوئی ناسور بھی نہیں اس کی نظر سے کیوں کبھی گزرے مری غزل ایسی تو خاص میں کوئی مشہور بھی نہیں شبنم شکیل
آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا ہر بار مسرت کا اعادہ نہیں ہوتا یہ کیسی صداقت ہے کہ پردوں میں چھپی ہے اخلاص کا تو کوئی لبادہ نہیں ہوتا جنگل ہو کہ صحرا کہیں رکنا ہی پڑے گا اب مجھ سے سفر اور زیادہ نہیں ہوتا اک آنچ کی پہلے بھی کسر رہتی رہی ہے کیوں ساتواں در مجھ پہ کشادہ نہیں ہوتا سچ بات مرے منہ سے نکل جاتی ہے اکثر ہر چند مرا ایسا ارادہ نہیں ہوتا اے حرف ثنا سحر مسلم ترا تجھ سے بڑھ کر تو کوئی ساغر بادہ نہیں ہوتا افسانۂ افسون جوانی کے علاوہ کس بات کا دنیا میں اعادہ نہیں ہوتا سورج کی رفاقت میں چمک اٹھتا ہے چہرہ شبنمؔ کی طرح سے کوئی سادہ نہیں ہوتا شبنم شکیل
زندگی سنگِ درِ یار سے آگے نہ بڑھی عاشقی مطلعِ دیدار سے آگے نہ بڑھی تیرگی کیسوئے خمدار سے آگے نہ بڑھی روشنی تابشِ رُخسار سے آگے نہ بڑھی دلبری رونقِ بازار سے آگے نہ بڑھی سادگی حسرتِ اظہار سے آگے نہ بڑھی خود فراموش ترے عرش کو چُھو کر آئے خواجگی جُبّہ و دستار سے آگے نہ بڑھی بس میں ہوتا تو تری بزم سجاتے ہم بھی بے بسی سایہِ دیوار سے آگے نہ بڑھی جلوہِ ذات سے آگے تھی فقط ذات ہی ذات بندگی رقصِ سرِ دار سے آگے نہ بڑھی بے خودی دشت و بیاباں سے ورا ہے واصفؔ آگہی وادئِ پُر خار سے آگے نہ بڑھی واصف علی واصف
Hazrat Muhammad(S.A.W) ny Farmaya: Aadmi Apny Ikhlaq Ki Waja Sy Un Logon Ka Martabah Pa leta Hai Jo Raton ko Ibadat Krty Hain or Din Ko Rozy Rakhty Hain. 💖🌺
O Allah I call you to witness and you are the adequate witness and I call to witness every one of your holy messengers. the occupants of your sky. the bearers of your position of authority. that I give testimony you are Allah: There is no god however You. You Alone.🌺🌼
Friday Jummah The Messenger of Allah, (PBUH), said “whoever hears the call to Friday supplication and he doesn’t come, and he heart it again and does not come, and he hears it again and does not come, at that point Allah will put a seal over his heart and give him the core of a wolf in sheep’s clothing.”💐💖 Jumma Mubarak.