صحرا جو پُکاریں بھی تو سُن کر نہیں آتے اب اہلِ جُنوں شہر سے باہر نہیں آتے وہ کال پڑا ہے تجارت گاہِ دل میں دستاریں تو میسر ہیں مگر سَر نہیں آتے وہ لوگ ہی قدموں سے زمیں چھین رہے ہیں جو لوگ میرے قد کے بھی برابر نہیں آتے اِک تم کہ تمہارے لیے میں بھی ؛ میری جان بھی اِک میں کہ مجھے تم بھی میسر نہیں آتے اِس شان سے لوٹے ہیں گنوا کر دل و جان ہم اِس طَور تو ہارے ہوئے لشکر نہیں آتے کوئی تو خبر لے میرے دشمنِ جان کی کچھ دن سے میرے صحن میں پتھر نہیں آتے دل بھی کوئی آسیب کی نگری ہے کہ محسن جو اِس سے نکل جاتے ہیں مُڑ کر نہیں آتے
- کوئی تردید کا صدمہ ہے نہ اثبات کا دکھ جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو کس بات کا دکھ ؟ میز پر چائے کا بھاپ اُڑاتا ہوا کپ اور ساتھ رکھا ہے نہ ہونے والی ملاقات کا دکھ۔🙂
وہ چاند رُت کے حسین لمحوں کی شاعری ھے کہ اُس کی باتیں ہزار سالوں کی شاعری ھے یہ خُشک پتے کہ جیسے راہوں میں لفظ بکھرے اُداس موسم میں ان درختوں کی شاعری ھے یہ تیری پلکیں یہ عصر ِ نو کے ہین سب مضامیں یہ تیری آنکھیں یہ کن زمانوں کی شاعری ہے ہماری آنکھیں اداس غزلوں کے قافیے ہیں ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ھے یہ صرف لفظوں کی تابکاری کا زھر کب ھے خدا کے بندو یہ ہم غریبوں کی شاعری ھے یہ کھیت جیسے کہ میر و غالب کے شعر ساحر یہ کچے رستے ہمارے گاؤں کی شاعری ھے
یہ کائنات صراحی تھی ، جام آنکھیں تھیں مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھیں خطوطِ نور سے ہر حاشیہ مزّین تھا کتابِ نور میں سارا کلام آنکھیں تھیں نظر فروز تھا یوسف کا پیرہن شاید دیارِ مصر سے پہلا سلام آنکھیں تھیں
آلِ نبی کے بغض سے گھائل ہوئے بغیر عشاقِ اولین کے قاتل ہوئے بغیر! بے غیرتی پہ موت کو ترجیح دیتے ہیں! کٹتے ہیں ہم، یزید پہ مائل ہوئے بغیر! ہم نے کبھی حسین کا ماتم نہیں کیا! ہم لوگ حق کے ساتھ ہیں باطل ہوئے بغیر! ہم لوگ دونوں فرقوں میں کافر شمار ہیں! کرتے ہیں غم، جلوس کے قائل ہوئے بغیر! حق بولنا حسین کا بھی جرم تھا وفا ہم کیسے مانیں اسکے دلائل، ہوئے بغیر!