مجھ پر جو اٹھ رہے ہیں، سوالوں کی خیر ہو تہمت بھرے تمہارے خیالوں کی خیر ہو ویسے یہ تالے میرے لیے درد ناک ہیں پھر بھی ترے مکان کے تالوں کی خیر ہو یاروں میں چند یار منافق بھی ہوتے ہیں کانٹوں کے ساتھ رہتے گلابوں کی خیر ہو
زرد چہرہ ھے میرا زرد بھی ایسا ویسا ہجر کا درد ھے اور درد بھی ایسا ویسا ایسی ٹھنڈک کہ جمی برف ہر اک خواہش پر سرد لہجہ تھا کوئی سرد بھی ___ایسا ویسا اب اسے فرصت ِ احوال میسر ہی نہیں وہ جو ہمدرد تھا ہمدرد بھی ایسا ویسا یعنی اس دھول کےچھٹنے پہ بھی الزام جنوں کوئی طوفاں ہے پس گرد بھی ____ایسا ویسا پوری بستی میں بس اک شخص سےنسبت مجھ کو مجھ سےمنکر ہےوہ اک فرد بھی_______ ایسا ویسا عشق نے ریل کی پٹری پہ لٹایا جس کو تھا جواں مرد جواں مرد بھی ایسا ویسا کیا تجھے ہجر کے آزار بتائے مرشد تو تو بے درد ہے بے درد بھی ایسا ویسا
میں بچھڑتے ہوئے ہنس رہا ہوں مگر ذہن حیران ہے لوگ مشکل بتاتے رہے اور کام اتنا آسان ہے کمتری کا یہ احساس، اداسی، کسی کے بچھڑنے کا دکھ اتنا لمبا سفر بھی نہیں ہے مرا، جتنا سامان ہے آنے والے مجھے اجنبی اجنبی کہہ کے ہنستے رہے اور وہ اتنا نہیں کہہ سکا کہ یہ بھی میرا مہمان ہے
ہر راز کھولتا ہُوں،،، بڑا بدتمیز ہُوں میں سچ جو بولتا ہُوں بڑا بدتمیز ہُوں اچھے بھلے شریفوں کے ظاہر کو چھوڑ کر اندر کو پھولتا ہُوں،،،،، بڑا بدتمیز ہُوں اخلاقیات کا میں جنازہ نکال کر لہجے ٹٹولتا ہُوں بڑا بدتمیز ہُوں کس کی مجال ہے کہ کہے مُجھ کو بدتمیز میں خُود ہی بولتا ہُوں بڑا بدتمیز ہُوں کر کے غمِ حیات کی تلخی کا میں نشہ دن رات ڈولتا ہُوں بڑا بدتمیز ہُوں ہر ایک شعر میں حق سچ کی شکل میں میں زہر گھولتا ہُوں،، بڑا بدتمیز ہُوں
اب اس کے بعد ، تجھے یہ دیکھ نہ پائیں گی سو اپنی آنکھوں کو بھی نوچنا پڑے گامجھے ترے فراق میں ممکن ہے، تھک کے دنیا میں کہ خودکشی کے لیے سوچنا پڑے گا مجھے