ایک فہرست _ رفتگاں ہے میاں
رویا جائے تو کس کو رویا جائے
شوق سنگھار بجا ہے ترا لیکن جاناں
مری تنخواہ ترے صدقات میں اُڑ جائیگی
یہ انکی مرضی مجھے نکالیں یا حل نکالیں
تیری وجہ سے میں شہر والوں کا مسئلہ ہوں
.
تمام شاخیں تمھارے رستے میں جھک چکی ہیں
میں آنے والے تمام لوگوں کا مسئلہ ہوں
وہ تو معشوق ہیں ہر بات پہ روٹھیں گے جگر
تم نہ گھبرا کہ کہیں ان سے خفا ہوجانا
ایسی تصویر بنا روتے ہوۓ خوش بھی لگوں
غم کی ترسیل تو ہو غم کا تماشہ نہ لگے
کون ہوتا ہے برے وقت کی حالت کا شریک
.
مرتے دم آنکھوں کو بھی دیکھا ہے کی پھر جاتی ہیں
کچھ بھی اپنا نہیں ہے میرے پاس
بد دعا بھی کسی کی دی ہوئی ہے
.
اس نے پوچھی ہے آخری خواہش
اور محبت بھی میں نے کی ہوئی ہے
تو نے کتنوں کو نچایا ہے اشاروں پہ مگر
.
میں نے اے عشق یہ مجرا نہیں ہونے دینا
اپنی ہنستے ہوئے تصویر بنانی ہے مجھے
ایک دشمن ہے جسے آگ لگانی ہے مجھے
مدتوں خاک اڑاتا رہا لوگوں کی تُو ، اب
مدتوں ، عشق! تری خاک اڑانی ہے مجھے
دوست! پھولوں کا ، بہاروں کا کوئی ذکر نہ چھیڑ
اب تو وحشت ہے جو اک عمر نبھانی ہے مجھے
چند لمحوں کے لئے بات اگر کر لی ہے
یہ نہ سمجھو کہ کوئی بات بڑھانی ہے مجھے
مجھ کو یہ کھیل محبت کا بہت ازبر ہے
تم جسے آگ سمجھتے ہو وہ پانی ہے مجھے
پھر کسی وقت کوئی بات کریں دنیا کی ؟
ان دنوں سخت طبیعت کی گرانی ہے مجھے
آنکھوں پہ کرو سورهءِ توبہ کی تلاوت،
میں خواب اُٹھانے کا گُنہ گار ہُوا ہوں!
میرے جھکنے کے کیوں ہیں منتظر؟
آپ مبتلا ایک لا حاصل ارماں میں ہیں
.
اور میں خود کو ٹھوکر مار کر گزر جاؤں
آپ میری جان کس گمان میں ہیں؟
مجھ تک آتے ہوئے دنیا اسے روکے گی بہت
رک بھی جائے گا کسی راہ میں پر آئے گا
عمر کے دن تو اسی آس میں کٹ جاتے ہیں
رات ڈھل جائے گی اور وقت سحر آئے گا
منتظر آنکھیں کسی طاق میں بجھ جائیں گی
کوئی ہوگا ہی نہیں کوئی اگر آئے گا
سیکھ جاؤں گا ترے بعد بھی جینا لیکن
مجھ کو اے دوست ترے ہجر سے ڈر آئے گا
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو۔۔
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشت خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں
لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں
عشق میں اتنا خسارہ ہے تو گھر جاتے ہیں
موت کو ہم نے کبھی کچھ نہیں سمجھا مگر آج
اپنے بچوں کی طرف دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
زندگی ایسے بھی حالات بنا دیتی ہے
لوگ سانسوں کا کفن اوڑھ کے مر جاتے ہیں
پاؤں میں اب کوئی زنجیر نہیں ڈالتے ہم
دل جدھر ٹھیک سمجھتا ہے ادھر جاتے ہیں
کیا جنوں خیز مسافت تھی ترے کوچے کی
اور اب یوں ہے کہ خاموش گزر جاتے ہیں
یہ محبت کی علامت تو نہیں ہے کوئی
تیرا چہرہ نظر آتا ہے جدھر جاتے ہیں
شہر میں اک کالونی تھی کالونی کیا تھی جنت تھی
جنت جس کے دروازوں پر بندوقوں کا سایہ تھا
ایک سمندر کیسے کیسے دریاؤں کو جھیلتا ہے
کل اک دریا اپنے اندر صحرا بھر کر لایا تھا
صاف عیاں تھا اس کے چہرے سے اس کے اندر کا دکھ
میرے مرنے پر اس نے بس ڈھول نہیں بجوایا تھا
چیخوں چلّاؤں مذاق بن جاؤں؟
اس سے بہتر نہیں کہ اندر ہی اندر مر جاؤں؟
اب کسی آنکھ کا جادو نہیں چلتا مجھ پر
وہ نظر بھول گئی ہے مجھے پتھر کر کے
پوچھنا چاہتا ہوں میں اُن آنکھوں سے جمال
کس کو آباد کیا ہے، مجھے بے گھر کر کے
مری ستائشی آنکھیں کہاں ملیں گی تجھے
تو آئینے میں بہت بن سنور کے روئے گا
اسے تو صرف بچھڑنے کا دکھ ہے اور مجھے
یہ غم بھی ہے وہ مجھے یاد کر کے روئے گا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain