یہ سانحہ بھی گزرا ہے تیری خدائی میں
طلاق دی گئی ہے دلہن کو منہ دکھائی میں
.
یہ اور بات ہے کہ ہم مانگتے نہیں ورنہ
ہمارا حصہ ہے دنیا کی پائی پائی میں
.
اور شدید غصے میں سترنگی چوڑیوں کیساتھ
ہمارا دل بھی ٹوٹا ہے تیری کلائی میں🙂
فرطِ درد سے میں نےاپنی انگلیوں کے پوروں پر
.
.
اشک جب سمیٹے تھے آپ بھی تو بیٹھے تھے♥
تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا
ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا
رفاقتوں کا مری اُس کو دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا
عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی
کھلے دریچے پہ اِک گلدان چھوڑ گیا
جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھُپائےرکھتا تھا
بڑھی ہے دُھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا
نکل گیا کہیں ان دیکھے پانیوں کی طرف
زمیں کے نام کھُلا دربان چھوڑ گیا
عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے
جو گر گئی تو یونہی نیم جان چھوڑ گیا
نجانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا
عقب میں گہرا سمندر ہے سامنے جنگل
کِس انتہا پہ مرا مہربان چھوڑ گیا
میں جو ہنستا ہوں اب محبت پہ
.
.
مجھے آ لیا تھا محبت نے🙂
وہ مجھ سے ہاتھ چھڑا کر
کسی اور کے قدموں میں جا گری
♥
آپ کیوں صاحبِ اسرار سمجھتے ہیں مجھے
گھر کے افراد تو بے کار سمجھتے ہیں مجھے
آپ کو میں نے کبھی غور سے دیکھا بھی نہیں
آپ بھی اپنا طلب گار سمجھتے ہیں مُجھے
میرے کردار کی جو قسمیں اٹھاتے تھے کبھی
اب وہی لوگ گناہگار سمجھتے ہیں مجھے
آپ تو وقت گزاری کو مجھے ملتے ہیں
آپ تو شام کا اخبار سمجھتے ہیں مجھے
جب بھی مشکل میں ہوں احباب تو آ جاتے ہیں
کسی درویش کا دربار سمجھتے ہیں مجھے
اہل_ دانش کی نظر میں ہوں میں کم فہم مگر
سارے کم فہم سمجھدار سمجھتے ہیں مجھے
جن کی تلقین پہ میں غم میں ہنسا کرتا ہوں
جانے کیوں اب وہ اداکار سمجھتے ہیں مجھے
میں کہانی کا ہوں اک ثانوی کردار
اور وہ مرکزی کردار سمجھتے ہیں مجھے
پھول کس نے قبول کرنے ہیں
جب تلک مسکرا رہے ہو تم
گاؤں کی جھاڑیاں بتاتی ہیں
شہر میں گُل کِھلا رہے ہو تم
دے کے بوسہ وہ وصل میں مجھ سے پوچھتے ہیں میر
دل میں تیرے اور بھی ارمان ہیں کہ بسسسسسس
اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ بے دلی کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو
کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ
نہ کوئی یاد نہ آنسو نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ
ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے
یہ گرد بادِ زمانہ یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ
یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد
کہ جیسے سو نہ سکیں خواب میں ڈرے ہوئے لوگ
کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا ہے فرازؔ
کسی کی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ
تُو خود بتا کیا تیرا مُسکرانا بنتا ہے؟
میں رو رہا ہوں تیرا چُپ کرانا بنتا ہے
اُنگلیاں پھیر کر بھی حل نہیں ہوتا ھے اگر
ایسے حالات میں تو سر دبانا بنتا ہے
تُم جو کہتے ہو کہ ہر بے وفا پہ لعنت ہو
یوں تو پھر آپکا بھی مُنہ چُھپانا بنتا ہے
وصل کی چاہتیں بھی آج نہیں
بے دلی کا کوئی علاج نہیں
دل مرا اس کے پاس ہے لیکن
اس کے کھاتے میں اندراج نہیں
*
اور ہے اپنی کہانی اور ہے
داستاں اس کو سنانی اور ہے
میں تو سویا تھا ستارے اوڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے
ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اس سمندر کا تو پانی اور ہے
پُھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پرانی اور ہے
اجنبی! اِک پیڑ بھی ہے سامنے
اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے
یوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے
پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے
عاجزی کے لباس میں
دلوں کے فرعون ہیں لوگ
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب
دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن
خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن
میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن
آپ سے پہلے بھی کسی نے کھو دیا تھا مجھے
.
.
آپ سے پہلے بھی کوئی میری انا سے ٹکرایا تھا
.
یہ سمندر ہے، کنارے ہی کنارے جاؤ!
عِشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے، جاؤ
یُوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ اُس وقت ،کہ جِس وقت پُکارے جاؤ
دِل کی بازی لگے، پھر جان کی بازی لگ جائے
عِشق میں ہار کے بیٹھو نہیں ، ہارے جاؤ
کام بن جائے، اگر زُلفِ جنُوں بن جائے!
اِس لیے ،اِس کو سنوارو کہ سنوارے جاؤ
کوئی رستہ کوئی منزِل اُسے دشوار نہیں
جِس جگہ جاؤ محبّت کے سہارے جاؤ
ہم تو مٹّی سے اُگائیں گے محبّت کے گُلاب
تم اگر توڑنے جاتے ہو سِتارے ،جاؤ
ڈُوبنا ہو گا ، اگر ڈُوبنا تقدیر میں ہے
چاہے کشتی پہ رہو، چاہے کنارے جاؤ
تم ہی سوچو، بَھلا یہ شوق کوئی شوق ہُوا
آج اُونچائی پہ بیٹھو، کل اُتارے جاؤ
موت سے کھیل کے ،کرتے ہو محبّت، عاجزؔ
مُجھ کو ڈر ہے، کہیں بے موت نہ مارے جاؤ
کہیں اکیلے میں مل کر جھنجھوڑ دوں گا اسے
جہاں جہاں سے وہ ٹوٹا ہے جوڑ دوں گا اسے
مجھے وہ چھوڑ گیا یہ کمال ہے اس کا
ارادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دوں گا اسے
بدن چرا کے وہ چلتا ہے مجھ سے شیشہ بدن
اسے یہ ڈر ہے کہ میں توڑ پھوڑ دوں گا اسے
پسینے بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج
کبھی جو ہاتھ لگا تو نچوڑ دوں گا اسے
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے💔💔
موت حیران کُن پَہیلی ہے
اور یہ زِندگی نے کھیلی ہے
ایک تنہائی ، دُوسری دَھڑکن
شاعری ، تیسری سہیلی ہے
صرف دِل داؤ پر لگایا تھا
آپ نے جان ساتھ لے لی ہے
ایک پہیے کی گاڑی کیا چلتی !
قبر تک زِندگی دَھکیلی ہے
قیس میں اور زِندہ رِہ لیتا
آسمانوں پہ وُہ اَکیلی ہے ۔۔۔ !!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain