پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئ  پھول ہے
اوہ جب تو قبول ہے تیرا سب کچھ قبول ہے
.
اور تو دل پہ بوجھ رکھ کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اسطرح تو بچھڑنا قبول ہے
وہ صورتِ مریم تھی، میں منحرفِ تقدیس..
ابلیس کے سینے میں انجیل اتر آئی..
🙂
وہ ایک رات تو مجھ سے الگ نہ سوئے گا
ہوا جو لذت بوس و کنار سے واقف
دینے والے ترے کن سے نہیں کچھ بھی سوا
کیا وہ ایک شخص مجھے دان نہیں ہو سکتا...!!
آسماں جلتی زمیں پر نہیں آنے والا
اب یہاں کوئی پیمبر نہیں آنے والا
پیاس کہتی ہے چلو ریت نچوڑی جاۓ
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
اپنے کعبے کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے
اب  ابابیلوں کا  لشکر  نہیں  آنے  والا
تو پکارے گا تو اے صحن حرم ہم آئیں گے
پر اڑاتے ہوئے نصرت کے علم آئیگے
اب ابابیلوں کی مانند ہم آئیگے
یہ الگ بات ہے کہ تعداد م کم آئیگے
سروں سے کھینچ لیا وقت نے وفا کا لحاف 
وہ پردے اٹھ گئے جو تعینات رہتے تھے 
بچھڑ گیا ہے وہ سنگین موسموں میں کہیں 
وہ میرے دل پہ سدا جس کے ہاتھ رہتے تھے 🌹
میں جن کے واسطے روتا تھا طاق راتوں میں
کدھر گئے ہیں وہ کیسے نہیں ہیں میرے پاس؟
میں اس لیے بھی دعا مانگتا ہوں ٹھیک رہوں
علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں میرے پاس!
ہمیں پسند سہی، اب یہ رنگ مت پہنو
پرائے تن پہ ہماری امنگ مت پہنو
ہماری روح پہ پڑتی ہیں بدنما شکنیں
لباس پہنو، مگر اتنا تنگ مت پہنو
ہمارے ساتھ زمانہ بھی چل پڑے نہ کہیں
تم اپنے پاؤں میں، یہ جلترنگ مت پہنو
انا چمکنے نہ دے گی تمھیں کسی رت میں
تم آئینہ ہو مری جاں! یہ زنگ مت پہنو
 فضا پرست ہے وہ، اس سے کیا کہیں عاصم
کہ لال اوڑھ لو اور سبز رنگ مت پہنو
تُو تو رستے میں مل گئی ورنہ
میں کسی اور کی تلاش میں تھا
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف 
.
.
.
آپ کیا خاک عدالت میں گواہی دیں گے؟
وہ ہاتھ چوما ہوا ہے ، ہمارے ہونٹوں کا
وہ ہاتھ ، دیکھنا تم روٹیاں جلائے گا 🧡
دے کے بوسہ وہ وصل میں مجھ سے پوچھتے ہیں میر
دل میں تیرے اور بھی ارمان ہیں کہ بسسسسسس
ہر سال حفاظت کی بڑھا دیتا ہے قیمت
سالار وہ تاجر ہے جو ڈر بیچ رہا ہے
ممکن ہے اب کی بار میں آدھا دکھائی دوں
ممکن ہے تیرا ہجر یہ چہرہ ادھیڑ دے..!
ممکن ہے تیرے پاس نہ ملنے کا عذر ہو
ممکن ہے کوئی شہر کا رستہ ادھیڑ دے..!
انورؔ کہا تھا عشق نے چمڑی ادھیڑ دوں
میں نے بھی کہہ دیا کہ، اچھا ادھیڑ دے..!
♥
اچھا مجھے سمجھتے ہو اتنا نہیں ہوں میں
انسان ہوں حضور فرشتہ نہیں ہوں میں
کہتا ہوں سرعام جو لگے ہے مجھکو سچ
کڑوا ہوں منہ سے دل کا میلا نہیں ہوں میں 
لباس پرشکن ہے اور اعصاب بھی ہیں شل
حالات سے اس جنگ میں ہارا نہیں ہوں میں 
اگرچہ پھنسا ہواہوں میں کوفیوں کے بیچ
پر چارہ گر خیال کہ تنہا نہیں ہوں میں
جب بھی کسی یزید سے مڈ بھیڑ ہوگئی
سر دے کے سرخرو رہا بھاگا نہیں ہوں میں 
تاریخ رقم کروں گا مرنے سے پہلے میں 
دو چار دن کی بات یا قصہ نہیں ہوں  میں
ستائش ہوئی نہ مجھ سے کبھی چاکری ہوئی
اے دوست تری قبیل کا بندہ نہیں ہوں میں
لوگوں سے مختلف ہوں یہ دعوی نہیں مرا
وحید میں ضرور ہوں پر یکتا نہیں ہوں میں
یہ کیا ؟ کہ جب بھی ملو پوچھ کے بتا کے ملو
کبھی کرو مجھے حیران اچانک آ کے ملو
.
اور دعا سلام ہے کیا شیئ مصافحہ کیسا؟؟
تکلفات کو چھوڑو گلے لگا کے ملو♥
تو اگر ہاتھ نہ دنیا میں مرا تھامے گا 
میں گریبان پکڑ لوں گا ترا محشر میں
اگر چہ بزم میں باالکل  سمٹ کے ملتا ہے
مگر وہ تنہا ملے تو لپٹ کے ملتا ہے
بدن وصال کا خواہاں , دماغ ضبط میں گم
عجیب شخص ہے ٹکڑوں میں بٹ کے ملتا ہے
پہلے بھیک میں خوشیاں مانگا کرتے تھے
عشق ہوا تو کاسہ ہم نے توڑ دیا
تھوڑی سی خودداری بھی تو لازم تھی
جس نے ہاتھ چھڑایا، ہم نے چھوڑ دیا
"اس ایٹمی دور میں عشق، فورڈ کار کی چابی گھمانے سے سٹارٹ ہوتا ہے اور محبت نامے کی چیک بک پر لکھے جاتے ہیں۔ 
اب یہ لڑکیاں محبوب کی بے وفائی کا سن کر زہر کھانے کی بجائے چکن سینڈوچز کھا کر رومال سے منہ پونچھتی ہیں اور دوسرے محبوب کی تلاش میں ، دوسری کار کی تلاش میں، دوسرے کیرئیر کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں۔ 
محبت کے جذبات آج کل اسپرو کی ایک ٹکیہ کھا کر غائب ہو جاتے ہیں اور عشق کا ہیجان فروٹ سالٹ کے ایک ہی چمچ سے بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔
شادی زندگی کے کاؤنٹر پر مستقل سودا ہے اور محبت شادی کی گاڑی کے پیچھے لٹکتا ہوا جوتا ہے"
submitted by 
uploaded by 
profile: 
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain
		