"اِمیج" کتنی بار کہا ہے تم سے پیر جھٹک کے چلنے کی عادت کو سیدھا کرلو تُم کائنات کی "گریویٹی" ہل جاتی ہے "سولر سسٹم" کو جھٹکے سے لگتے ہیں دھرتی کی گردش میں ہلچل ہوتی ہے پیر جھٹک کے چلنے کی عادت کو سیدھا کرلو تُم!!
ظاہری طور طریقے کو کہاں مانتے تھے دنیا والے مرے رتبے کو کہاں مانتے تھے میں اگر شعر نہ کہتا تو مرے شہر کے لوگ ایک لوہار کے بیٹے کو کہاں مانتے تھے یار چل تُو ہی بتا!تُو تو ہمیں جانتا ہے ہم سے پتھر! کسی صدمے کو کہاں مانتے تھے وہ تو اک آنکھ بدلنے سے ہمیں علم ہوا ورنہ ہم بخت کے لکھے کو کہاں مانتے تھے پھر تمہیں چومنا پڑتی تھیں ہماری آنکھیں تیرے ہوتے ہوئے سونے کو کہاں مانتے تھے ایک ان دیکھا خدا مان رہے تھے اب تک تجھ سے پہلے کسی بندے کو کہاں مانتے تھے پہلے پہلے تھا ہمیں خود پہ بھروسہ ساحر پہلے پہلے ترے ہونے کو کہاں مانتے تھے
تمہیں یقینِ محبت نہیں ہے؟؟؟؟ حیرت ہے! خدا کا حکم محبت ہے..... "کُن" مُحبت ہے بچھڑتے وقت فقط مسکرا کے دیکھا تھا میں اس کو بول نہ پایا کہ " سُن، مُحبت ہے"
اے پڑوسی ترے آنگن کا یہ خوش رنگ پرند روز اڑ کر مری دیوار پہ آ جاتا ہے پھر یہ ہوتا ہے کہ ہم سادہ دلوں کا بھی دل شہر کے آخری مکار پہ آ جاتا ہے دوست تیرے لیے اٹھتا ہوں تو سارا دفتر اتنا کم ظرف ہے تکرار پہ آ جاتا ہے
جب ہم ٹُھکرائے جاتے ہیں رُلائے جاتے ہیں جب دل بے چین ہوتا ہےجب سانس تنگ ہونے لگتی ہےجب روح پر وحشت کا بسیرا ہونے لگتا ہےجب ہر رشتہ اپنی اصلیت دکھاتا ہےجب کچھ نظر نہیں آتا تب ہی تو ہم بھٹکے ہوؤں کو رَب نظر آتا ہےتب ہی احساس ہوتا ہے اس رب کے سِوا ہمارا ہے کون ہے
معزز بن کے محفل میں اداکاری نہیں کرتا, , میں چہرے پر کبھی جھوٹی انا طاری نہیں کرتا,, میرے دشمن میرے دستور سے واقف نہیں شاید,, میں جس کو دوست کہہ دوں اس سے غداری نہیں کرتا,, یہاں بہتر ھے اپنی ذات کا ہمدرد ھوجانا,, زمانہ غم تو دے سکتا ھے غم خواری نہیں کرتا,,✔
جز تیرے کوئی بھی دِن رات نہ جانے میرے تو کہاں ہے مگر اے دوست پُرانے میرے شمع کی لو تھی کہ وہ توُ تھا مگر ہجر کی رات دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے خلق کی بے خبری ہے کہ مری رُسوائی لوگ مُجھ کو ہی سُناتے ہیں فسانے میرے آج اک اور برس بیت گیا اُس کے بغیر جِس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے کاش تو بھی کبھی آئے مسیحائی کو لوگ آ تے ہیں بُہت دِل کو دُکھانے میرے
اے دن رآت جھگڑنے والی اِک بوسہ ہو جائے کڑواہٹ تو بہت ہوئی اب کچھ میٹھا ہو جائے توں خالص مکھن کی گُڑیا اور میں تندور جنوں کا ہم مل جائیں تو جانے کیسا حشر برپا ہو جائے ائے کافر بت کچھ اِنعام تو دے اپنی پوجا کا اِس سے قبل کہ فارس اللہ کو پیارہ ہو جائے
مائیں بیٹوں سے خفا ہیں اور بیٹےماؤں سے عشق غالب آگیا ہے دودھ کی تاثیر پر مشکلوں سے چل رہا ہے کاروبار_زندگی عیش کرنے والا تھا میں باپ کی جاگیر پر میں انہی آبادیوں میں جی رہا ہوتا کہیں تم اگر ہنستے نہی اس دن میری تقدیر پر
کیا کہے گا کبھی ملنے بھی اگر آئے گا وہ اب وفاداری کی قسمیں تو نہیں کھائے گا وہ ہم سمجھتے تھے کہ ہم اس کو بھلا سکتے ہیں وہ سمجھتا تھا ہمیں بھول نہیں پائے گا وہ کتنا سوچا تھا پر اتنا تو نہیں سوچا تھا یاد بن جائے گا وہ خواب نظر آئے گا وہ سب کے ہوتے ہوئے اک روز وہ تنہا ہو گا پہر وہ ڈھونڈے گا ہمیں اور نہیں پائے گا وہ اتفاقاً جو کبھی سامنے آیا اجمل اب وہ تنہا تو نہ ہو گا جو ٹھہر جائے گا وہ
اچھا مجھے سمجھتے ہو اتنا نہیں ہوں میں انسان ہوں حضور فرشتہ نہیں ہوں میں کہتا ہوں سرعام جو لگے ہے مجھکو سچ کڑوا ہوں منہ سے دل کا میلا نہیں ہوں میں لباس پرشکن ہے اور اعصاب بھی ہیں شل حالات سے اس جنگ میں ہارا نہیں ہوں میں اگرچہ پھنسا ہواہوں میں کوفیوں کے بیچ پر چارہ گر خیال کہ تنہا نہیں ہوں میں جب بھی کسی یزید سے مڈ بھیڑ ہوگئی سر دے کے سرخرو رہا بھاگا نہیں ہوں میں تاریخ رقم کروں گا مرنے سے پہلے میں دو چار دن کی بات یا قصہ نہیں ہوں میں ستائش ہوئی نہ مجھ سے کبھی چاکری ہوئی اے دوست تری قبیل کا بندہ نہیں ہوں میں لوگوں سے مختلف ہوں یہ دعوی نہیں مرا وحید میں ضرور ہوں پر یکتا نہیں ہوں میں