"ہو مطمئن دل تو ویرانوں کے سناٹے بھی گیت؛
"دل اجڑ جائے تو شہروں میں تنہائی بہت"
Eid mubark❤️
تم دُکھ کا ترجمہ نہ کرو، تجربہ کرو
دُکھ منتقل نہ ہو گا کسی بھی زبان میں
مٹھاس دیکھنی ہے تو ہماری بولی سن
خلوص دیکھنا ہے تو ہمارے شہر باغ آہ
خُدایا دیکھ وہ چہرہ میری مُحبت ہے
خزاں کے ہاتھ نہ دینا کبھی گلاب میرا
ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں
میرے اطراف یہ زنجیر علائق کیسی
زندگی جرم سہی قابل تعزیر نہیں
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
میں ہوں یا موجِ فنا ، اور یہاں کوئی نہیں
تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ
22st☠️
جس دن سے شکاری نے ادا کی کوئی منت
دربار پہ اس دن سے کبوتر نہیں جاتے
سو تم مجھے حیرت زدہ آنکھوں سے نہ دیکھو
کچھ لوگ سنبھل جاتے ہیں سب مر نہیں جاتے
دیکھو مجھے اب میری جگہ سے نا ہلانا
پھر تم مجھے ترتیب سے رکھ کر نہیں جاتے
آؤ کہ مرگِ سوزِ محبت منائیں ہم
آؤ کہ حسنِ ماہ سے دل کو جلائیں ہم
خوش ہوں فراقِ قامت و رخسارِ یار سے
سرو و گل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم
ویرانیٔ حیات کو ویران تر کریں
لے ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم
پھر اوٹ لے کے دامن ابرِ بہار کی
دل کو منائیں ہم کبھی آنسو بہائیں ہم
سلجھائیں بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال
واں جائیں یا نہ جائیں نہ جائیں کہ جائیں ہم
پھر دل کو پاسِ ضبط کی تلقین کر چکیں
اور امتحانِ ضبط سے پھر جی چرائیں ہم
آؤ کہ آج ختم ہوئی داستانِ عشق
اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
وہ مجھ پہ غور کرے گا تو پوچھے گا
۔
کہ آدھے آدھے ہو آدھے کدھر گئے ہو؟
آنکھ سے آنسو نکل جائیں گے اور ٹہنی سے پھول
وقت بدلے گا تو سب قیدی رہا ہو جائیں گے
کتنے پر امید کتنے خوبصورت ہیں یہ لوگ
کیا یہ سب بازو یہ سب چہرے فنا ہو جائیں گے
لاکھ بہتر ہے زمانے کی خبر رکھنے سے
ایک ہی شخص کے ہر دکھ سے شناسا ہونا
کبھی پت جھڑ کبھی بارش سے کنایا کرنا
ہم کو اظہار ِ محبت نہیں آیا کرنا
ایک مدت سے مری خاک ِ تپاں دیکھتی ہے
وہی دیوار کا دیوار پہ سایا کرنا
نیلگوں کہر میں لپٹے ہوئے ماضی کےوہ دن
اک دریچے پہ ٹھٹھکنا ' گزر آیا کرنا
مسل کے آنکھیں ، جھٹک کے بالوں کے بکھرے چھلے
سنوار کر پیرہن کی شکنیں
میں روز جس وقت جاگتا ہوں
سحر کی چنچل حسین لڑکی
کنارە ساڑھی کا ٹھونس لیتی ہے یوں کمر میں
کہ جیسے اب مجھ سے لڑ پڑے گی
شریر چنچل حسین لڑکی!
ہم ایسے شہرِ طلسمات سے نکالے گئے
کہ جیسے عیب کسی ذات سے نکالے گئے
خوشی کی باڑ بنائی تھی پہلے گرد اُس کے
پھر اس کے دکھ بھی مضافات سے نکالے گئے
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
آخری دن🔥
تین سو پینسٹھ موتیوں پہ مشتمل اس لڑی کا آخری موتی
اس شخص کے نام
کہ جس کے جانے پر ہزار دلاسے دئیے گئے
مگر سکوں کا ایک سکہ بھی قدرت نے مرے کاسے میں نہیں ڈالا
ان آوازوں کے نام
جو آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں
"صبر صبر صبر پھل میٹھا پھل"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain