بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
اچانک مصرعہ جاں سے بر آمد ہونے والے
کہاں ہوتا تھا تُو جب شاعری ہوتی نہیں تھی
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
وہ فلک کو آنکھ بھر کے دیکھے
یا چاند کو دیکھ کر شرمائے
نظم بنتی ھے !
وہ کرے بناؤ سنگھار
کاجل لگائے یا پھول سجائے زلفوں میں
اس کی انہی دلفریب اداؤں پر
نظم بنتی ھے !
وہ دھیرے سے مجھے پکارے
میں دوڑ کر اس کی جانب لپکوں
ان دو چار لمحوں پر باخدا
نظم بنتی ھے !
اتنے مخلص نہ بنو تم کہ کسی دن تم سے
میں یہ چاہوں کہ مرے ساتھ جیو ، ساتھ مَرو
ضبط کر اے دلِ مجرُوح کہ اِس دُنیا میں
کون سا دل ہدفِ گردشِ ایّام نہیں
غمِ محبوب و غمِ دہرو غمِ جاں کی قسم
ایسے غم بھی ہیں یہاں جن کا کوئی نام نہیں
تمھارا کیا کیا جائے ، تمھیں کم اچھے لگتے ہیں
جو اچھا دیکھ سکتے ہیں ، انھیں ہم اچھے لگتے ہیں
اس بوڑھی پچارن کے خدو خال سے پوچھو
بت اس کی تمنا کے حسیں تھے کہ نہیں تھے
ہمارے وِیران بستروں میں، اُداس شالوں میں کیا لگے گا
ہجوم کیڑوں کے، ڈھیر مٹّی کے اور جالوں میں کیا لگے گا
ابھی تو ہم تم ہیں خوبصورت، ابھی تو رُت ہی بہار کی ہے
مجھے یہ ڈر ہے ہمارا جوڑا، اجاڑ سالوں میں کیا لگے گا
یونانی لڑکی! میں ایشیا کےکروڑوں ایکڑ کا دیوتا ہوں
پہ دل ہے تیرا سدا کا گورا یہ بھورے کالوں میں کیا لگے گا
میں بے ہُنر ہوں، میں ساگ کھاتا ہوں اور کھیتوں میں گھومتا ہوں
مجھ ایسا شہروں کے ریستورانوں میں "پوش مالوں" میں کیا لگے گا
سننے والوں کو فقط فرضی بیاں لگتا ہے ،
تیرا ہر بول میرے دل پر ، یہاں لگتا ہے،
اک تیرے بعد کوئی شخص کہیں پر بھی ہو،
ہو بھلے ڈھیر حسیں ، دل کو کہاں لگتا ہے.....
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں!!
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں
اس نے صحرا میں قدم رکھا تو میاں
دشت کو بخت لگے ، ریت پہ جوبن آیا
دیکھتے دیکھتے سینے سے الگ کر ڈالا
کیسے یکلخت ہمیں دل سے اتارا تُو نے۔۔۔
ہم ترے بخت کے آزار اٹھاتے ہوئے لوگ۔۔۔۔۔۔
کس تغافل سے ہمیں جان سے مارا تُو نے
"حُسن کائنات کی گرامر ہے ، اور اِسے سمجھنے کے لیئے "عشق کرنا
ضروری ہے...
کوئی میدان میں اگر آۓ
حق تو یہ ہے اٹھا کے سر آۓ
آپ کو منہ نہیں لگایا تو
آپ بہتان پر اتر آۓ؟
تری کھوکھلی سی وضاحتوں سے بہل تو جائے یہ دل مگر
تو جواب جس کا نہ دے سکا مری آنکھ میں وہ سوال ہے
ترے قول و فعل کی خیر ہو تری واعظوں سی ہیں خصلتیں
میں کروں جو شکوہ حرام ہے تو کرے ستم تو حلال ہے
اب کون کہے تم سے؟
بے چین طبیعت ھے
گھمبیر اُداسی ھے
اب کون کہے تم سے ؟
میں غم کا مصّور ھُوں
تصویر اُداسی ھے🥀
اب کون کہے تم سے ؟
اک قید ھے زخموں کی
زنجیر اُداسی ھے
اب کون کہے تم سے ؟
پائی ھے سزا جس کی
تقصیر اُداسی ھے
اب کون کہے تم سے ؟
ھاتھوں کی لکیروں میں
تقدیر اُداسی ھے
اب کون کہے تم سے ؟
دنیا میں تمہارے بن
ھر چیز اُداسی ھے
باتوں باتوں میں اسے روک کے رکھنا دن بھر
شام ہوجائے تو کہنا کہ سفر ٹھیک نہیں
میں نے یہ سوچ کے دونوں کو سرِ راہ رکھا
سپنے آنکھوں میں، دِیے طاقچوں پر ٹھیک نہیں
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
حضور بخت کے ساٸے ہیں ڈھلتے رہتے ہیں
حویلیوں سے جنازے نکلتے رہتے ہیں
سفید کپڑوں میں عزت کے دعویدار تو دیکھ
یہ وقت آنے پہ شجرے بدلتے رہتے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain