مجھ ایسا شخص اگر قہقہوں سے بھر جائے
یہ سانس لیتی اداسی تو گُھٹ کے مر جائے
وہ میرے بعد ترس جائے گا محبت کو
اُسے یہ کہنا، اگر ہو سکے تو مر جائے
ہار جانے پہ لوگ کہتے ہیں
کون جھگڑا کرے مقدر سے
اُس گھڑی کا خوف لازم ہے، کہ انورؔ جس گھڑی
دھر لیے جائیں گے سب، اور سب دھرا رہ جائے ﮔﺎ
انور مسعود ۔
تمہارے بعد سخاوت سے ڈر گئے ہم
تمہارے بعد محبت سے ہاتھ کھینچ لیا
ہم جیسے انا زادے اُداسیوں کی زد میں آ کر
تُجھے پکارنا بھی چاہیں تو کہاں پُکاریں گے🍂
🥀🖤
کوئی میرے وجود کی ایک ایک رگ بھی کاٹ ڈالے تب بھی مجھے اتنی اذیت محسوس نہ ہو جتنی مجھے ہر لمحے کی یہ سوچ دیتی ہے کہ "تُم کسی اور کو میسر ہو"۔۔۔🍁🙂
وہ سراپا سامنے ہے استعارے مُسترد...
چاند ، جگنُو ، پھول ، خوشبُو اور ستارے مُسترد...
تذکرہ جن میں نہ ہو اُن کے لب و رُخسار کا...
ضبط وہ ساری کتابیں ، وہ شمارے مسترد...
اُس کی خوشبو ہم سفر راہِ مسافت میں ہو گر...
خواب ، منظر ، رہ گزر ، دریا ، شرارے مُسترد...
وہ شہر کی اک اداس لڑکی ۔
جو اس بھروسہ پہ جی رہی ہے کہ اس کا ساتھی کبھی بھی دھوکہ نہیں کرے گا ۔
تمام دنیا کے طعنے اپنے نحیف کندھے پہ ڈھا رہی ہے ۔
(وہ داشتہ ہے وہ بد چلن ہے ۔)
اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کسی سے ہنس کر سلام کرنا بھی جرم ٹھہرے گا اس کی خاطر ۔
وہ سوچتی ہے ۔
کہ وہ محبت کہ جس کے قصے ہم اپنے بچپن میں دادی اماں سے شب گئے تک سنا کئے تھے ۔
یہ وہ نہیں ہے ۔
وہ گاوں زادہ ۔
جو اپنے یاروں کے ہر عمل کا ڈسا ہوا تھا ۔
وہ آج وعدوں کا مان رکھنے خدا سے اس کو قبول کرنے کا عہد کرنے حرم گیا ہے ۔
وہ آج خوش ہے ۔
اداس لڑکی اداسیوں کی تمام راہیں عبور کر کے اسے ملی ہے تو آج خوش ہے
تمام عالم تمہارے ملنے پہ آج خوش ہے ۔
وہ شہر زادی اداس لڑکی جو آج خوش ہے ۔
جس کو دیکھو وہی مست و بے خود یہاں
وقت کی راگنی پر تھرکتا ہوا
اپنے انجام سے بے خبر چل پڑا
جتنے دانا ہیں وہ اک طرف دم بخود
بُت بنے دیکھتے ہیں تماشا فقط
جانتے ہیں کوئی غارِ بے رہ روی
نَسلِ نو کو نگل لے گا اک آن میں
پھر بھی کوئی نہیں ہے جو آگے بڑھے
نَے نَوازی کی کہنہ روایت کا رُخ موڑ دے
وقت کی راگنی کا فسوں توڑ دے
کس میں جرآت کہ اس داستاں کو
یہاں سے نیا موڑ دے
کسی محاذ سے جو سرخرو نہیں لوٹا
اسے یہ چاہیے اپنے خلاف جنگ کرے
وحشتی ہوں سو گریبان کو آ سکتا ہوں
مجھ سے ڈرنے کا مگر مجھ کو ڈرانے کا نہیں
تم میرا آخری راستہ ہو۔۔۔
جس کے بعد وفات ہوتی ہے۔۔۔
تم سامنے جو آ کر بیٹھ جاؤ
پھر کہاں ہم سے بات ہوتی ہے
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
اگر کوئی عورت آپ سے محبت کرتی ہے تو وہ آپ کے کافی کے دعوت نامے پر پیرس سے دمشق تک آ سکتی ہے۔
چھوڑ بھی اے بَنی ٹھنی، تابہ کُجا یہ جاں کنی
میں ہوں نِرا شکستنی، توڑ کے مت بنا مجھے
اب تو نہیں میں خوش غنا، اب تو نہیں غزل سرا
اب تو لہو میں رم نہ کر، اب تو نہ یاد آ مجھے
ایک آہ ان حسرتوں کے نام جو کبھی پوری نہ ہو سکیں، ایک دلاسہ ان خواہشوں کیلئے جو کبھی پوری نہ ہوں گی، معتبر آنسو ان خوابوں کی نظر جو دیکھے نہیں گئے، عقیدت بھرا بوسہ ان باتوں کو جو کوئی سن نہیں پایا اور بوسیدہ ندامت آن چاہتوں پر جو جتائی نہیں گئیں
قیاس تو بہت سنے تُو کون ہے
کہی سُنی سے کیا کھُلے تُو کون ہے
یہ شکل کی، لباس کی بساط کیا!
کلام کر.... پتہ چلے تُو کون ہے!!
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain