__وہ منزلیں بھی کھو گئی وہ راستے بھی کھو گئے__ جو آشنا سے لوگ تھے وہ اجنبی سے ہوگئے__ نہ چاند تھا نہ چاندنی عجیب تھی وہ زندگی چراغ تھے کہ بجھ گئے نصیب تھے کہ سو گئے__ یہ پوچھتے ہیں راستے رکے ہو کس کے واسطے چلو تم بھی اب چلو کہ وہ مہرباں بھی کھو گئے__
اک عالم ہجراں ہی اب ہم کو پسند آیا یہ خانۂ ویراں ہی اب ہم کو پسند آیا بے نام و نشاں رہنا غربت کے علاقے میں یہ شہر بھی دل کش تھا تب ہم کو پسند آیا تھا لال ہوا منظر سورج کے نکلنے سے وہ وقت تھا وہ چہرہ جب ہم کو پسند آیا ہے قطع تعلق سے دل خوش بھی بہت اپنا اک حد ہی بنا لینا کب ہم کو پسند آیا آنا وہ منیرؔ اس کا بے خوف و خطر ہم تک یہ طرفہ تماشا بھی شب ہم کو پسند آی