مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے M وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقین پھر یوں ہوا کہ مر کے دِکھانا پڑا مجھے M بھولے سے مری سَمت کوئی دیکھتا نہ تھا چہرے پہ اِک زخم لگانا پڑا مجھے M اُس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے M یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی اُس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے M اُس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار کل آئینے پہ ہاتھ اُٹھانا پڑا مجھے M ایسے بچھڑ کے اُس نے تو مر جانا تھا حسن اُس کی نظر میں خود کو گِرانا پڑا مجھے