تُو اگر زحمت کشِ ہنگامۂ عالم نہیں یہ فضیلت کا نشاں اے نیّرِ اعظم نہیں اپنے حُسنِ عالم آرا سے جو تُو محرَم نہیں ہمسرِ یک ذرّۂ خاکِ درِ آدم نہیں نورِ مسجودِ مَلک گرمِ تماشا ہی رہا اور تُو منّت پذیرِ صبحِ فردا ہی رہا
صدمہ آ جائے ہوا سے گُل کی پتّی کو اگر اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر دل میں ہو سوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر نور سے جس کے مِلے رازِ حقیقت کی خبر شاہدِ قُدرت کا آئینہ ہو، دل میرا نہ ہو سر میں جُز ہمدردیِ انساں کوئی سودا نہ ہو
حُسن تیرا جب ہُوا بامِ فلک سے جلوہ گر آنکھ سے اُڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر نور سے معمور ہو جاتا ہے دامانِ نظر کھولتی ہے چشمِ ظاہر کو ضیا تیری مگر ڈھُونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے چشمِ باطن جس سے کھُل جائے وہ جلوا چاہیے
Aftab_e_subha. شورشِ میخانۂ انساں سے بالاتر ہے تو زینتِ بزمِ فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو ہو دُرِ گوشِ عروسِ صبح وہ گوہر ہے تو جس پہ سیمائے اُفق نازاں ہو وہ زیور ہے تو صفحۂ ایّام سے داغِ مدادِ شب مِٹا آسماں سے نقشِ باطل کی طرح کوکب مٹا
... غَرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا کہ نظّارگی ہو سراپا نظارا ملَک آزماتے تھے پرواز اپنی جبینوں سے نورِ ازل آشکارا فرشتہ تھا اک، عشق تھا نام جس کا کہ تھی رہبری اُس کی سب کا سہارا