...
اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخیِ طرزِ بیاں
آگ تھی کافورِ پیری میں جوانی کی نہاں
تھی زبانِ داغؔ پر جو آرزو ہر دل میں ہے
لیلیِ معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے
اب صبا سے کون پُوچھے گا سکُوتِ گُل کا راز
کون سمجھے گا چمن میں نالۂ بُلبل کا راز
تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
...
بُلبلِ دلّی نے باندھا اس چمن میں آشیاں
ہم نوا ہیں سب عنادل باغِ ہستی کے جہاں
چل بسا داغؔ آہ! میّت اس کی زیبِ دوش ہے
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
...
عظمتِ غالبؔ ہے اک مدّت سے پیوندِ زمیں
مہدیِ مجروحؔ ہے شہرِ خموشاں کا مکیں
توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیرؔ
چشمِ محفل میں ہے اب تک کیفِ صہبائے امیرؔ
آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے
شمعِ روشن بُجھ گئی، بزمِ سخن ماتم میں ہے
...
لاکھ وہ ضبط کرے پر میں ٹپک ہی جاؤں
ساغرِ دیدۂ پُرنم سے چھلک ہی جاؤں
خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جاؤں
عشق کا سوز زمانے کو دِکھاتا جاؤں
...
یاس و اُمیّد کا نظّارہ جو دِکھلاتی ہو
جس کی خاموشی سے تقریر بھی شرماتی ہو
جس کو شوہر کی رضا تابِ شکیبائی دے
اور نگاہوں کو حیا طاقتِ گویائی دے
زرد، رُخصت کی گھڑی، عارضِ گُلگوں ہو جائے
کششِ حُسن غمِ ہجر سے افزوں ہو جائے
...
کسی پیشانی کے افشاں کے ستاروں میں رہوں
کس مظلوم کی آہوں کے شراروں میں رہوں
اشک بن کر سرِمژگاں سے اٹک جاؤں میں
کیوں نہ اُس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جاؤں میں
جس کا شوہر ہو رواں ہو کے زرہ میں مستور
سُوئے میدان وغا، حُبِّ وطن سے مجبور
...
ایسی چنروں کا مگر دہر میں ہے کام شکست
ہے گُہر ہائے گراں مایہ کا انجام شکست
زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل
ہے یہ انجام اگر زینتِ عالم ہو کر
کیوں نہ گر جاؤں کسی پھول پہ شبنم ہو کر!
...
واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا
چھوڑ کر بحر کہیں زیبِ گلُو ہو جاتا
ہے چمکنے میں مزا حُسن کا زیور بن کر
زینتِ تاجِ سرِ بانوئے قیصر بن کر
ایک پتھّر کے جو ٹکڑے کا نصیبا جاگا
خاتمِ دستِ سلیماں کا نگیں بن کے رہا
...
میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا
ساقیِ موت کے ہاتھوں سے صبُوحی پینا
نہ یہ خدمت، نہ یہ عزّت، نہ یہ رفعت اچھّی
اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظُلمت اچھّی
...
لُطفِ ہمسایگیِ شمس و قمر کو چھوڑوں
اور اس خدمتِ پیغامِ سحَر کو چھوڑوں
میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھّی
اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھّی
...
مَیں نے چاقو تجھ سے چھِینا ہے تو چِلّاتا ہے تُو
مہرباں ہوں مَیں، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تُو
پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم
چُبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم
آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے
کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے، یہ بے آزار ہے
...
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے، خرد ہے، روحِ رواں ہے، شعور ہے
اے آفتاب! ہم کو ضیائے شعور دے
چشمِ خرد کو اپنی تجلّی سے نور دے
...
My Plans for life is to live it.
Good morning. have a chigy wigy Sunday.
...
...
...
yes Mr riwaj.
yeh cheez ;_)
...
...
...
xSHaaaaM BaKHaaiiR..:_p
...
...
...
travelling back to Abbottabad from Khaki.
...
لہُو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے
سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
ڈرا سکِیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سِکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain