...
مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہُوں
اگرچہ مَیں نہ سپاہی ہُوں نے امیرِ جنُود
مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور
عطا ہُوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود
جبینِ بندۂ حق میں نمود ہے جس کی
اُسی جلال سے لبریز ہے ضمیرِ وجود
...
سُورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دُنیا ہے عجب چیز، کبھی صبح کبھی شام
مُدّت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہریِ ایّام
نے ریت کے ذرّوں پہ چمکنے میں ہے راحت
نے مثلِ صبا طوفِ گل و لالہ میں آرام
پھر میرے تجلّی کدۂ دل میں سما جاؤ
چھوڑو چمَنِستان و بیابان و در و بام
...
اک شور ہے، مغرب میں اُجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھُویں سے ہے سیَہ پوش
مشرق نہیں گو لذّتِ نظّارہ سے محروم
لیکن صفَتِ عالمِ لاہُوت ہے خاموش
پھر ہم کو اُسی سینۂ روشن میں چھُپا لے
اے مہرِ جہاں تاب! نہ کر ہم کو فراموش
...
بولی کہ مجھے رُخصتِ تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرّہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ مَیں ہِند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اُٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب
خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبالؔ کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب
...
چشمِ مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزَف ریزہ دُرِناب
اس خاک سے اُٹھّے ہیں وہ غوّاصِ معانی
جن کے لیے ہر بحرِ پُر آشوب ہے پایاب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دِلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب
...
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دِلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب
بُت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برَہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہِ محراب
مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر
فِطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحَر کر!
...
ہے تری شان کے شایاں اُسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود
اب کہاں میرے نفَس میں وہ حرارت، وہ گداز
بے تب و تابِ درُوں میری صلوٰۃ اور درُود
ہے مِری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟
...
ہے مرے سِینۂ بے نُور میں اب کیا باقی
’لااِلہ‘ مُردہ و افسُردہ و بے ذوقِ نمود
چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو
کہ ایازی سے دِگرگُوں ہے مقامِ محمودؔ
کیوں مسلماں نہ خِجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہُوا مثلِ زُجاج اس کا وجود
...
عشق اب پیرویِ عقلِ خدا داد کرے
آبُرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے
کہُنہ پیکر میں نئی رُوح کو آباد کرے
یا کُہن رُوح کو تقلید سے آزاد کرے
...
ہے گِلہ مجھ کو تِری لذّتِ پیدائی کا
تُو ہُوا فاش تو ہیں اب مرے اَسرار بھی فاش
شُعلے سے ٹُوٹ کے مثلِ شرَر آوارہ نہ رہ
کر کسی سِینۂ پُر سوز میں خلوَت کی تلاش!
...
خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہُوا نہ کوئی خُدائی کا رازداں پیدا
ہوائے دشت سے بُوئے رفاقت آتی ہے
عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا
...
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
خودی میں ڈُوبنے والوں کے عزم و ہمّت نے
اس آبُجو سے کیے بحرِ بے کراں پیدا
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفَس سے کرے عُمرِ جاوداں پیدا
...
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس عِلم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دِیں سے اگر مَدرسۂ زن
ہے عشق و محبّت کے لیے عِلم و ہُنر موت
...
ہزار بار حکیموں نے اس کو سُلجھایا
مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
...
یہ فقرِ غیُور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
...
ناپید ہے بندۂ عمل مست
باقی ہے فقط نفَس درازی
ہِمّت ہو اگر تو ڈھُونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی
...
Maturity ka or Kia saboot don k cricket ki bjaey Artaghrul daikhtay hon ab.
...
غیرت ہے طریقتِ حقیقی
غیرت سے ہے فقر کی تمامی
اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرَو کی غلامی
...
غارت گر دیں ہے یہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
دربارِ شہنشہی سے خوشتر
مردانِ خدا کا آستانہ
لیکن یہ دَورِ ساحری ہے
انداز ہیں سب کے جادُوانہ
سرچشمۂ زندگی ہُوا خشک
باقی ہے کہاں مئے شبانہ!
...
خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain