جس کے پلّو سے چمکتے ھوں شہنشاہ کے بوٹ ایسی دربار سے بخشی ھوئی دستار پہ تُھو جو فقط اپنے ھی لوگوں کا گلا کا ٹتی ھو ایسی تلوار مع، صاحبِ تلوار پہ تُھو شہر آشوب زدہ ، اُس پہ قصیدہ گوئی گنبدِ دہر کے اس پالتو فنکار پہ تُھو سب کے بچوں کو جہاں سے نہ میسّر ھو خوشی ایسے اشیائے جہاں سے بھرے بازار پہ تُھو روزِ اوّل سے جو غیروں کا وفادار رہا شہرِ بد بخت کے اُس دوغلےکردار پہ تُھو زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور عادلِ شہر ترے عدل کے معیار پہ تُھو کاٹ کے رکھ دیا دنیا سے تری دانش نے اے عدو ساز ، تری دانشِ بیمار پہ تُھو!