کیسے آئے گا تیرے...... خدوخال کا موسم قسمتوں میں لکھا ہے جب زوال کا موسم کس نے کھیل کھیلا کس نے ہجر جھیلا ہے اب گزر گیا جاناں..... اس سوال کا موسم کس طرح سے ممکن تھا ایک شاخ پر کھلتے میں کہ ہجرکا لمحہ..... تو وصال کا موسم دل کے اب تو صحرا ہےاور ایسے صحرا میں جانے کب تلک ٹھہرے... اب ملال کا موسم آج تک بھی ٹھہرا ہے دل کی راہگزاروں پر تیرے لمس کا تیرے ...خدوخال کا موسم ہم کبھی تو دیکھیں گے وحشتوں کے صحرا میں اے خدا محبت کے......... اعتدال کا موسم
اچھا تمہارے شہر کا دستور ھو گیا جس کو گلے لگا لیا وہ دور ھو گیا کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ھو گیا محلوں میں ہم نے کتنے ستارے سجا دیئے لیکن زمیں سے چاند بہت دور ھو گیا تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی انا! آئینہ بات کرنے پہ مجبور ھو گیا دادی سے کہنا اس کی کہانی سنائیے جو بادشاہ عشق میں مزدور ھو گیا صبح وصال پوچھ رھی ھے عجب سوال وہ پاس آ گیا کہ بہت دور ھو گیا کچھ پھل ضرور آئیں گے روٹی کے پیڑ میں جس دن مرا مطالبہ منظور ھو گیا بشیر بدر
جو بھی پڑھے وہ سوچے یہ کس کا نصیب ھے قصہ ہمارا ہم سے زیادہ مہیب ھے اندازہ کیجے آپ ھی اس دل فریب کا سارے کا سارا شہر ھی میرا رقیب ھے رہتا ھوں دور دور میں خود سے بھی آج کل یہ کون آج کل میرے اتنا قریب ھے سائے کا بوجھ بھی نہ اٹھا پائے یہ میرے گھر کا چراغ بھی میرا کتنا غریب ھے اتباف ابرک